Lirik

کوئی دن گر زندگانی اور ہے کوئی دن گر زندگانی اور ہے اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے کوئی دن گر زندگانی اور ہے اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے کوئی دن گر زندگانی اور ہے بارہا دیکھی ہیں اُن کی رنجشیں بارہا دیکھی ہیں اُن کی رنجشیں پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے کوئی دن گر زندگانی اور ہے دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر کچھ تو پیغامِ زبانی اور ہے اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے کوئی دن گر زندگانی اور ہے آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں سوزِ غم ہائے نہانی اور ہے اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے کوئی دن گر زندگانی اور ہے ہو چکیں، غالبؔ، بلائیں سب تمام ہو چکیں، غالبؔ، بلائیں سب تمام ہو چکیں، غالبؔ، بلائیں سب تمام ایک مرگِ ناگہانی اور ہے اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے کوئی دن گر زندگانی اور ہے کوئی دن گر زندگانی اور ہے اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے کوئی دن گر زندگانی اور ہے اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے کوئی دن گر زندگانی اور ہے
Writer(s): Mirza Ghalib, Mian Yousaf Salahuddin Lyrics powered by www.musixmatch.com
instagramSharePathic_arrow_out