Letra

دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں، لرزاں ہیں دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں، لرزاں ہیں تیری آواز کے سائے، تیرے ہونٹوں کے سَراب دشتِ تنہائی میں، دُوری کے خس و خاک تلے کِھل رہے ہیں تیرے پہلُو کے سمن اور گلاب دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں، لرزاں ہیں تیری آواز کے سائے، تیرے ہونٹوں کے سَراب دشتِ تنہائی میں، دُوری کے خس و خاک تلے کِھل رہے ہیں تیرے پہلُو کے سمن اور گلاب اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تیری سانس کی آنچ اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تیری سانس کی آنچ اپنی خوشبو میں سُلگتی ہوئی مدھم مدھم دور افق پار، چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ گر رہی ہے تیری دلدار نظر کی شبنم اس قدر پیار سے، اے جانِ جہاں، رکھا ہے اس قدر پیار سے، اے جانِ جہاں، رکھا ہے دل کے رُخسار پہ اس وقت تیری یاد نے ہات یوں گماں ہوتا ہے، گرچہ ہے ابھی صبحِ فراق ڈھل گیا ہجر کا دن، آ بھی گئی وصل کی رات دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں، لرزاں ہیں تیری آواز کے سائے، تیرے ہونٹوں کے سَراب دشتِ تنہائی میں، دُوری کے خس و خاک تلے کِھل رہے ہیں تیرے پہلُو کے سمن اور گلاب
Writer(s): Iqbal Bano, Faiz Ahmed Faiz Lyrics powered by www.musixmatch.com
instagramSharePathic_arrow_out