Lyrics

یہ لوگ، پتھر کے دل ہیں جن کے نمائش رنگ میں ہیں ڈوبے یہ کاغذی پھول جیسے چہرے مذاق اڑاتے ہیں آدمی کا انہیں کوئی، کاش، یہ بتا دے، مقام اونچا ہے سادگی کا انہیں بھلا زخم کی خبر کیا، کہ تیر چلتے ہوئے نہ دیکھا اداس آنکھوں میں آرزوؤں کا خون جلتے ہوئے نہ دیکھا اندھیرا چھایا ہے ان کے آگے حسین غفلت کی روشنی کا یہ کاغذی پھول جیسے چہرے مذاق اڑاتے ہیں آدمی کا یہ صحن گلشن میں جب گئے ہیں، بہار ہی لوٹ لے گئے ہیں جہاں گئے ہیں، یہ دو دلوں کا قرار ہی لوٹ لے گئے ہیں کہ دل دکھانا ہے ان کا شیوہ، انہیں ہے احساس کب کسی کا یہ کاغذی پھول جیسے چہرے مذاق اڑاتے ہیں آدمی کا میں جھوٹ کی جگمگاتی محفل میں آج سچ بولنے لگا ہوں میں ہو کے مجبور اپنے گیتوں میں زہر پھر گھولنے لگا ہوں یہ زہر شاید اڑا دے نشہ غرور میں ڈوبی زندگی کا یہ کاغذی پھول جیسے چہرے مذاق اڑاتے ہیں آدمی کا انہیں کوئی، کاش، یہ بتا دے، مقام اونچا ہے سادگی کا یہ کاغذی پھول جیسے چہرے...
Writer(s): Inayat Hussain Bhatti Lyrics powered by www.musixmatch.com
instagramSharePathic_arrow_out